اسرائیلیوں کے مکروہ حربے پہلی مرتبہ منظر عام پر



دوحا (نیوز ڈیسک) اسرائیل نے اپنی دہشت گردی اور بدمعاشی کو چھپانے کیلئے اور ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے عالمی اور خصوصاً مغربی میڈیا کو استعمال کرنے کیلئے ایک مکارانہ پراجیکٹ ترتیب دے رکھا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت 2009ءمیں اسرائیلی کے حمایتی مغربی لیڈروں کیلئے ایک گائیڈ ترتیب دی گئی جسے ”اسرائیل پراجیکٹ 2009ءگلوبل لینگوئج ڈکشنری“ کا نام دیاگیا ہے، اس گائیڈ میں 18 باب اور 117 صفحات ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اسرائیلی لیڈر سینکڑوں فلسطینیوں کا خون بہانے اور اس کے متعلق سخت سوالات پوچھے جانے پر بھی مسکراتے چہرے کے ساتھ مہذب انداز میں جواب کیوں دیتے ہیں تو اس کا جواب آپ کو اسرائیل کی میڈیا پالیسی کے متعلق لکھی گئی اس گائیڈ سے ملے گا۔ اس گائیڈ کو میڈیا میں اسرائیل کی نمائندگی کرنے والے لیڈروں کیلئے لکھا گیا تھا اور اسے انتہائی خفیہ رکھاگیا تھا لیکن کچھ رپورٹر اس کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوگئے۔
یہ میڈیا گائیڈ بتاتی ہے کہ اسرائیل کا موقف بیان کرتے وقت کون سے الفاظ استعمال کرنا ضروری ہے اور کن الفاظ کو استعمال نہیں کرنا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام تر ظالمانہ اقدامات کے باوجود میڈیا سے بات کرتے ہوئے مثبت الفاظ اور مثبت رویے کا مظاہرہ کریں۔ جب فلسطینی علاقوں پر قبضے اور یہیودی بستیوں کی بات کی جائے تو موضوع بدلنے کی کوشش کریں اور اسرائیلی قبضے سے توجہ ہٹانے کیلئے امن کی بات شروع کردیں۔ جب فلسطینیوں کے قتل عام کی بات کی جائے تو جواب میں یہ بتایا جائے کہ اسرائیل نے امن کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں اور رضاکارانہ طور پر فلسطینی علاقوں کو خالی کردیا ہے، یہ بھی بتایا جائے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں بسنے والے سب لوگوں کیلئے امن چاہتا ہے اور اسرائیلی اور فلسطینی بچوں کے مستقبل کو پرامن بنانا چاہتا ہے، گائیڈ میں یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ اس بات پر زور دیا جائے کہ غزہ سے انخلاءکے باوجود اسرائیل کو فلسطینی راکٹ حملوں کا سامنا ہے اور اسرائیل کے تحفظ کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسرائیل کیلئے پراپیگنڈہ کرنے والوں کو خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اسرائیلی مجبوریوں کو ظاہر کرنے والے سوالات پوچھیں، مثلاً آپ بتائیں کہ اگر راکٹ برسائے جارہے ہوں تو اسرائیل کیا کرے؟ اگر آپ کے ملک پر راکٹ فائر کئے جارہے ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا ہم پر اپنے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اور یہ مضحکہ خیز موقف اختیار کرنے کی نصیحت بھی کی گئی ہے کہ ”اسرائیل امن حاصل کرنے کیلئے فلسطین کو اپنی زمین نہیں دے گا کیونکہ جب بھی ایسا کیا گیا ہے تو اسرائیل پر جنگ مسلط کردی گئی ہے“ یہ اسرائیل کی مکارانہ میڈیا پالیسی ہی ہے کہ ایک طرف فلسطینی بچوں کو بموں سے اڑایا جاتا ہے اور دوسری طرف اسرائیلی لیڈر اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے امن کی بات کررہے ہوتے ہیں۔